امید سے تھا تصور امید ہی نہ رہی
امید سے تھا تصور امید ہی نہ رہی
شب فراق میں پہلی سی بے کلی نہ رہی
جو بات سارے فسانے کی جان تھی شاید
ملے جب ان سے تو وہ بات یاد ہی نہ رہی
سوا ہمارے کسی پر بھی یہ کرم نہ ہوا
سوا ہمارے کسی سے یہ بے رخی نہ رہی
ہوا تمہارا تبسم بھی رائیگاں آخر
مزاج دل میں یہاں تک شگفتگی نہ رہی
جو اس زمین کا ذرہ کوئی چمک اٹھا
تو پھر فلک کے ستاروں میں روشنی نہ رہی
ڈبو کے ناؤ مری مطمئن ہوا دریا
مزاج موج میں اس دن سے سرکشی نہ رہی
سیاہی شب کی گھٹی یا نہیں مگر احساںؔ
وہ آ گئے تو ان آنکھوں میں تیرگی نہ رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.