امید کے لمحے کسی جانب بھی نہیں تھے
امید کے لمحے کسی جانب بھی نہیں تھے
گہری تھی سیہ رات کواکب بھی نہیں تھی
اک کرب تھا کھلتی ہوئی کلیوں کے بدن میں
بالوں کے لیے پھول مناسب بھی نہیں تھے
تنہائی کے موسم میں اکیلے ہی تھے گھر میں
آئینے مگر ہم سے مخاطب بھی نہیں تھے
معتوب ہوئے شہہ تو غلاموں کی بن آئی
حاکم ہوئے ہیں وہ جو مصاحب بھی نہیں تھے
اک چیخ خموشی میں دبی سحر زدہ تھی
گو آئنوں سے عکس مخاطب بھی نہیں تھے
ہر دست تجسس میں تھی چھونے کی ہوس تیز
موجود کی تسخیر میں قالب بھی نہیں تھے
اب کاٹ رہے ہیں اسی بے رنگ سفر کو
ہم اپنی ہی تقدیر کے کاتب بھی نہیں تھے
کٹتے رہے دیواروں کے سائے سے نظرؔ ہم
اس راحت بے رنگ کے طالب بھی نہیں تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.