عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں
عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں
دن بتانے تھے مگر خود کو بتا آیا ہوں
دھول بھی ایسے قرینے سے اڑائی ہے کہ میں
ایک مرتے ہوئے رستے کو بچا آیا ہوں
کل کو دے آؤں گا جا کر اسے بینائی بھی
آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں
وادئ صوت نہیں مجھ کو بھلانے والی
نقش یوں کر کے وہاں اپنی صدا آیا ہوں
صرف پاؤں ہی نہیں قید سے باہر آئے
اپنی زنجیر کو بھی کر کے رہا آیا ہوں
اپنے آنسو بھی کیے نذر کسی پانی کے
پیاس دریا کی بہر طور بجھا آیا ہوں
زندگی تو بھی بہت یاد کرے گی مجھ کو
تیرے حصے کے بھی دکھ درد اٹھا آیا ہوں
اب پریشاں ہوں کہ تعبیر کا جانے کیا ہو
بند کانوں کو نیا خواب سنا آیا ہوں
جانے کس گھاٹ لگے عمر کی کشتی احمدؔ
خود کو سوکھے ہوئے دریا میں بہا آیا ہوں
- کتاب : Adab-o-Saqafat International (Pg. 66)
- Author : Shakeelsarosh
- مطبع : Misal Publishers Raheem Center Press Market Ameen Pur Bazar, Faisalbad, Pakistan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.