عمر گزری رہ گزر کے آس پاس
عمر گزری رہ گزر کے آس پاس
رقص کرتے اس نظر کے آس پاس
زلف کھلتی ہے تو اٹھتا ہے دھواں
آبشار چشم تر کے آس پاس
کوندتی ہیں بجلیاں برسات میں
طائر بے بال و پر کے آس پاس
رات بھر آوارہ پتے اور ہوا
رقص کرتے ہیں شجر کے آس پاس
چھوڑ آیا ہوں متاع جاں کہیں
غالباً اس رہ گزر کے آس پاس
بال بکھرائے یہ بوڑھی چاندنی
ڈھونڈتی ہے کیا کھنڈر کے آس پاس
اس گلی میں ایک لڑکا آج بھی
گھومتا رہتا ہے گھر کے آس پاس
ایک صورت آشنا سائے کی دھوپ
پڑ رہی ہے بام و در کے آس پاس
کیسے پر اسرار چہرے ہیں رساؔ
خواب گاہ شیشہ گر کے آس پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.