عمود ہو کے افق میں بدل رہے ہیں ستون
عمود ہو کے افق میں بدل رہے ہیں ستون
دہل رہی ہے عمارت پگھل رہے ہیں ستون
بنا ہی کھوکھلی ٹھہری تو کیا عروج و زوال
شکستگی کی علامت میں ڈھل رہے ہیں ستون
چھتیں تو گر گئیں شہتیر کی خرابی سے
یہ کس کا بوجھ اٹھائے سنبھل رہے ہیں ستون
ہوا کے رخ نے نیا مرثیہ لکھا ہے جہاں
بھڑک اٹھی ہے وہیں آگ جل رہے ہیں ستون
ندا ہے کیسی زمیں اے زمیں خبر تو لے
کہ بند کمروں کا سب راز اگل رہے ہیں ستون
بدلتے لمحوں کو گنتے ہوئے ہیں استادہ
نظر کا زاویہ کہتا ہے چل رہے ہیں ستون
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.