ان بتوں سے ربط توڑا چاہئے
ان بتوں سے ربط توڑا چاہئے
چاہئے اب ان کو تھوڑا چاہئے
قحبۂ دنیا کو چھوڑا چاہئے
ربط اس لولی سے توڑا چاہئے
کس زباں سے محتسب تو نے کہا
ساغر و مینا کو توڑا چاہئے
خندہ زن ہے مستیٔ میخوار پر
شیشۂ صہبا کو توڑا چاہئے
اس بط مے نے کیا ہم کو ذلیل
اس کی گردن کو مروڑا چاہئے
جی میں ہے سیر فلک کو جائیں ہم
بادۂ گلگوں کا گھوڑا چاہئے
ہے خراماں ناز سے موج نسیم
نکہت گل کا یہ گھوڑا چاہئے
دونوں آنکھیں کیوں نہ ہوں دل کو عزیز
آہوؤں کا مجھ کو جوڑا چاہئے
گر نشان منزل جاناں ملے
پھر قدم پیچھے نہ موڑا چاہئے
ایک مدت میں بڑھایا تو نے ربط
اب گھٹانا تھوڑا تھوڑا چاہئے
ظلمت شب سے ہے زینت ماہ کی
زلف کو عارض پہ چھوڑا چاہئے
ٹوٹے دل کو مومیائے لطف سے
ہو اگر توفیق جوڑا چاہئے
کیوں شہیدوں کا کفن ہووے سفید
ان کے تن پر لال جوڑا چاہئے
ہے جو فکر شاہ عالی سلسلہ
عالم معنی سے جوڑا چاہئے
کوہ تو تیشہ سے ٹوٹا کوہ کن
کوشک خسرو بھی توڑا چاہئے
پڑ گئی چکر میں کشتی نا خدا
اب خدا پر اس کو چھوڑا چاہئے
گر سمند ناز پر تو ہو سوار
زلف کا ہاتھوں میں کوڑا چاہئے
کھل گیا مجھ سے جو اک بند قبا
بولے اس کا ہاتھ توڑا چاہئے
اس کی زلفوں کو سپیرا دیکھ لے
گر اسے کالوں کا جوڑا چاہئے
گنج حسن اس کا ہے رخ اور مار زلف
گنج پر کالوں کا جوڑا چاہئے
باد پا ہے ابلق چشم سیاہ
کیا اسے کاجل کا کوڑا چاہئے
مارتا بلبل کو ہے کیوں باغباں
کان گل کا بھی مروڑا چاہئے
ہے چمن میں آمد فصل بہار
اب در زنداں کو توڑا چاہئے
ہے بہار آئی قبائے گل سے اب
بلبلوں کو لال جوڑا چاہئے
گل بھی ان کو خار آتے ہیں نظر
حاسدوں کی آنکھ پھوڑا چاہئے
میں ہوں عاصی منہ میں میرے وقت نزع
دامن تر کو نچوڑا چاہئے
رہ چکا تن کے قفس میں یہ بہت
روح کے طائر کو چھوڑا چاہئے
ہو اگر نہ سر میں سودا عشق کا
پھر اسے پتھر سے پھوڑا چاہئے
ہاتھ میں اے گل بدن مہندی لگا
پنجۂ مرجاں مروڑا چاہئے
کون سی مشکل ہے جو آساں نہ ہو
دل میں استقلال تھوڑا چاہئے
منزل ملک بقا میں مشرقیؔ
دامن نانک نہ چھوڑا چاہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.