ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں
ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں
صبح کہتے ہیں ہاں تو شام نہیں
ذکر دشمن پہ کیوں بگڑتے ہو
مہرباں آپ کا تو نام نہیں
مجھ کو کمبخت کیوں کہو ہر دم
میری جاں یہ تو میرا نام نہیں
برہمن ہم ہوئے مسلماں سے
اب بھی کافر تو ہوگا رام نہیں
در پہ ہے پاسبان میرے لئے
غیر جائے تو روک تھام نہیں
غیر پر خم کے خم لنڈھاتے ہو
میرے حصے کا کوئی جام نہیں
مست ہو کر وہ شیخ کا کہنا
مفت کی ہو تو مے حرام نہیں
جب کہا تم عدو پہ مرتے ہو
بولے اس میں کوئی کلام نہیں
غیر کیوں جا رہے ہیں مقتل کو
امتحاں میرا قتل عام نہیں
بس تمہارا غلام ہو کے رہوں
چاہئے مجھ کو اور نام نہیں
مست رکھتی ہے چشم مست اس کی
مجھ کو اب آرزوئے جام نہیں
ہنس پڑے ذکر وصل دشمن پر
یعنی میرا خیال خام نہیں
عید کا دن ہے پی بھی لے اک جام
اب تو زاہد مہ صیام نہیں
تیری عیاریاں سمجھتا ہوں
تجھ کو اور دشمنوں سے کام نہیں
کم ہے کب روز ہجر سے شب غم
صبح اس کی تو اس کی شام نہیں
غیر ہی فیضیاب رہتا ہے
مہربانی تمہاری عام نہیں
ایک چپ سی لگی ہے نشترؔ کو
جب سے وہ شوخ ہم کلام نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.