ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول
اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو
عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول
ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے
جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول
اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں
زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول
آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ
دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول
دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد
پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.