ان کی سنجیدگی سے کبر جہاں ٹوٹ گیا
ان کی سنجیدگی سے کبر جہاں ٹوٹ گیا
شر کی پسپائی ہوئی زور سناں ٹوٹ گیا
باغ میں چھاتے ہی تاریک خزاں کا موسم
چہرۂ گل سے تبسم کا سماں ٹوٹ گیا
ان کے جلوے کی ذرا دیکھو اثر انگیزی
ان کی آمد ہوئی اور شہر بتاں ٹوٹ گیا
تم تو ایقان کی سیڑھی پہ چڑھانے سے رہے
کیسے کہتے ہو کہ امکان گماں ٹوٹ گیا
کون ہے اس کا سبب آج معیشت ہے تباہ
کیا ہوا آج ترقی کا نشاں ٹوٹ گیا
قلب میں تیرے رہے خویش و اقارب کا غم
فکر کرنا نہ کبھی اپنا جہاں ٹوٹ گیا
منتظر جس کے لیے عینیؔ رہا شوق بہار
وہ ہوا جلوہ فشاں زور خزاں ٹوٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.