ان کو دنیا کی بہاریں مجھ کو زنجیریں ملیں
ان کو دنیا کی بہاریں مجھ کو زنجیریں ملیں
جس نے جیسے خواب دیکھے ویسی تعبیریں ملیں
اپنے ہی چہروں پہ گزرا اجنبیت کا گماں
دیکھنے کو جب ہمیں ماضی کی تصویریں ملیں
ہر قدم پر تہمتیں ہر سانس میں زہر الم
کیا کیا دنیا میں ہمیں جینے کی تعزیریں ملیں
وقت نے اپنائے کیا کیا خیر مقدم کے اصول
پھول جن ہاتھوں میں کل تھے آج زنجیریں ملیں
نرگسی آنکھوں کا کاجل آنسوؤں میں بہہ گیا
پھول سے رخ پر پگھلتے غم کی تحریریں ملیں
ہم غریب شہر تھے گمنامیوں کے درمیاں
ان کی نسبت سے مگر ہم کو بھی تشہیریں ملیں
سنگ و تیشہ آب و سم دشت جنوں دار و رسن
صرف اک لفظ وفا کی کتنی تفسیریں ملیں
آتش احساس غم میں عمر بھر جلتے رہیں
ہم قلم کاروں کو طالبؔ کیسی تقدیریں ملیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.