ان سے پوچھو کیوں آتے ہیں ہم سے پتھر کھانے لوگ
ان سے پوچھو کیوں آتے ہیں ہم سے پتھر کھانے لوگ
ہم سے کچھ امید نہ رکھیں ہم تو ہیں دیوانے لوگ
جسموں کے مابین ہے اک تازہ تازہ دیوار مگر
کیسے کہہ دوں اب ہیں پرائے یہ جانے پہچانے لوگ
جانے کیا کیا اور دکھائے عقل کا یہ انداز جنوں
دل کو دل سے کاٹ رہے ہیں کب سے کچھ فرزانے لوگ
دیکھنا ان کرچوں سے اب تم ہاتھ نہ زخمی کر لینا
ہاں کچھ ایسی بات ہوئی تھی پھینک گئے پیمانے لوگ
جب سے شیوہ پیر مغاں کا جاموں کی تخصیص بنا
میخانے سے اک اک کر کے روٹھ گئے دیوانے لوگ
ہوتی جو امید ذرا بھی ہونٹوں کو تر کرنے کی
گلیوں گلیوں خوار نہ پھرتے ہو آتے میخانے لوگ
بھیڑ لگی تھی رستے رستے جب تک صبح کے سائے تھے
دھوپ بڑھی تو اک اک کر کے بیٹھ گئے سستانے لوگ
جیتے جی احوال کی پرسش مشرق کا دستور نہیں
موت کی میٹھی نیند سلا کر آتے ہیں غم کھانے لوگ
ٹیسیں شعر میں ڈھلتی ہیں تو ہوتا ہے تنہا کوثرؔ
لطف اٹھانے شعروں سے پھر آتے ہیں بیگانے لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.