انہیں دشمن سے ملنے کی پڑی ہے
انہیں دشمن سے ملنے کی پڑی ہے
یہاں بیتابیٔ غم ہر گھڑی ہے
کسی صورت غم فرقت سہیں گے
کریں کیا اب تو سر پر آ پڑی ہے
بندھا ہے آنسوؤں کا تار غم میں
وہ فرماتے ہیں ساون کی جھڑی ہے
چلے جاؤ ذرا ٹھوکر لگا کر
ہماری لاش رستے میں پڑی ہے
نگاہ یار شرمائی ہوئی ہے
خدا معلوم کس کس سے لڑی ہے
نہیں ہے پاسباں در پر تمہارے
قیامت ہے کہ خود آ کر کھڑی ہے
ادائے عشق سے کب آشنا تھے
طبیعت آپ ہی سے کچھ لڑی ہے
تڑپتے زندگی بھر اس کو دیکھا
نظر جس پر تری جا کر پڑی ہے
نہ کیوں قائل ہوں اس صناع کا میں
یہ صورت جس نے فرصت میں گھڑی ہے
نئے رستے نکالے شوق نے پھر
طبیعت جب کبھی اپنی اڑی ہے
ہجوم اتنا ہے کیوں در پر تمہارے
یہاں کیا حسن کی دولت گڑی ہے
نہیں ہے دل میں یہ صورت کسی کی
کوئی تصویر شیشے میں جڑی ہے
تمہارا نام ہے ہر دم زباں پر
تمہاری یاد دل کو ہر گھڑی ہے
یہ ہے کس فتنہ گر کی آمد آمد
جگر تھامے ہوئے خلقت کھڑی ہے
غم فرقت سے کیوں کر جان چھوٹے
بڑی مشکل میں اب یہ جا پڑی ہے
عیادت کو مریض غم کی آؤ
کہ اس کی موت اب سر پر کھڑی ہے
ابھی سے وصل کا ارمان اے دل
ابھی تو ہجر کی منزل پڑی ہے
مقدر نے دیا ہے ساتھ کیا کیا
نگہ اس بت سے ہٹ ہٹ کر لڑی ہے
تمہارے لب کو کیا نسبت کسی سے
گل تر کی یہ نازک پنکھڑی ہے
سنبھل کر راہ الفت میں قدم رکھ
ارے نادان یہ منزل کڑی ہے
محبت میں جو دل الجھا ہے دل سے
نظر ان کی نظر سے جا لڑی ہے
کیا ہے منتخب دل نے انہیں کو
نظر لاکھوں میں ان پر جا پڑی ہے
ملا ہے عشق میں جو رنج ہاجرؔ
وہ اس زنجیر کی پہلی کڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.