عقابی زور خوش فہمی میں اکثر ٹوٹ جاتا ہے
عقابی زور خوش فہمی میں اکثر ٹوٹ جاتا ہے
ہوائیں گھیر لیتی ہیں تو شہپر ٹوٹ جاتا ہے
کنارے تو مزے سے بیٹھ کر سیراب ہوتے ہیں
مگر لہروں کو ڈھونے میں سمندر ٹوٹ جاتا ہے
کہیں نظریں جماؤں تو جلن ہوتی ہے آنکھوں میں
ذرا پلکیں جھپکتا ہوں تو منظر ٹوٹ جاتا ہے
کلینڈر بھی کہاں تک خستہ حالی کو چھپائیں گے
نئی جگہوں سے روزانہ پلستر ٹوٹ جاتا ہے
مرا دشمن پریشاں ہے مری ماں کی دعاؤں سے
وہ جب بھی وار کرتا ہے تو خنجر ٹوٹ جاتا ہے
کبھی انسان کے حالات ایسے بھی بگڑتے ہیں
کہ بگڑی کو بنانے میں مقدر ٹوٹ جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.