اس کا چہرہ ہے کہ بھولا ہوا منظر جیسے
اس کا چہرہ ہے کہ بھولا ہوا منظر جیسے
میری آنکھوں میں یہ آنسو بھی ہیں پتھر جیسے
ایک سایہ مرے قدموں سے لپٹ جاتا ہے
شام ہوتے ہی مری چھت سے اتر کر جیسے
ساحل دل پہ پٹختا ہے بہت سر اپنا
رات بھر تیرے خیالوں کا سمندر جیسے
یہ الگ بات کہ دیکھا نہیں اس کو اب تک
پھر بھی رہتا ہے مرے ساتھ وہ اکثر جیسے
گھنٹیاں بجتی ہیں اب ذہن کے دروازے پر
مسجدیں ٹوٹ رہی ہوں مرے اندر جیسے
زندگی قید ہوں میں اپنے بدن کے اندر
اور بلاتا ہے کوئی جسم سے باہر جیسے
- کتاب : سبھی رنگ تمہارے نکلے (Pg. 84)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2017)
- اشاعت : First
- کتاب : واہمہ وجود کا (Pg. 84)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.