اس کا مزاج برہم جو بانیٔ جفا ہے
اس کا مزاج برہم جو بانیٔ جفا ہے
کٹنے کو ہے کوئی سر پھر یار لب کشا ہے
چھپ چھپ کے جھانکتے ہو چلمن کی آڑ لے کر
جو بولتے نہیں تم وہ سب مجھے پتا ہے
پھر یاد آ رہی ہے ان کی بچھڑ گئے جو
چھیڑو نہ آج مجھ کو دل کچھ بجھا بجھا ہے
کیا پوچھتے ہو ان کی غمزہ طرازیوں کا
اس دل کا امتحاں ہے جو بھی نئی ادا ہے
اک مہر خامشی ہے ہونٹوں پہ جو لگی ہے
قدموں کی آہٹوں کو دل گوش بر صدا ہے
بے لطف ہو گئی ہے اب زندگی ہماری
لگتا ہے بس یہی اب دل زیست سے خفا ہے
کہتا ہے درد دل کو نا قابل مداوا
پوچھو اسے ذرا وہ کس مرض کی دوا ہے
کیوں بار بار مجھ سے وہ پوچھتے ہیں یارو
حالانکہ جانتے ہیں جو نفس مدعا ہے
کنج قفس میں یارو رہنے دو آج مجھ کو
سینہ دریدہ میں پھر درد آج کچھ سوا ہے
یادیں نہیں رلاتیں ایام رفتہ کی اب
تھا جو چراغ خستہ اک طاق پر رکھا ہے
آغوش عشق میں ہی سالکؔ تری بقا ہے
غنچے کی مسکراہٹ اس کے لیے فنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.