اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے
اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے
خوشبو وہ چاندنی کی مرے ذائقوں میں ہے
میں سوچ کے بھنور میں تھا جس شخص کے لیے
وہ خود بھی کچھ دنوں سے بڑی الجھنوں میں ہے
اس کا وجود خامشی کا اشتہار ہے
لگتا ہے ایک عمر سے وہ مقبروں میں ہے
میں آسماں پہ نقش نہیں ہوں مگر سنو
اب بھی مری شبیہ کئی سورجوں میں ہے
میری طرح لبادہ خموشی کا اوڑھ لے
اپنا کیا دھرا ہے جو اب جھولیوں میں ہے
میں کورے کاغذوں کی قطاریں اداس اداس
گزری رتوں کے دکھ کی تھکن بادلوں میں ہے
ہر چند کائنات رہی بے کراں مگر
انسان ابتدا ہی سے کچھ دائروں میں ہے
- کتاب : meyaar (Pg. 373)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.