اس کے کوچہ سے تو میں بے سر و ساماں نکلا
حشر کر دوں گا اگر قبر سے عریاں نکلا
منتظم غیر ہوئے لاش ترے در سے اٹھی
حیف گھر سے نہ مگر تو پئے ساماں نکلا
آ کے اغیار نے کی دفن و کفن کی تدبیر
دار دنیا سے یہ میں بے سر و ساماں نکلا
مہ نو دیکھتے ہی ہاتھ بڑھائے سب نے
شکر ہے یہ ترے وحشی کا گریباں نکلا
میری آنکھوں کے تلاطم نے ڈبویا مجھ کو
جوش گریہ ہی مرا باعث طوفاں نکلا
جان و دل کو بھی سمجھتا ہوں کہ ہے مال اس کا
مجھ سا دنیا میں کہاں بے سر و ساماں نکلا
آتش عشق سے اب کون بچائے مجھ کو
دل بھی نکلا تو چراغ تہ داماں نکلا
لاشیں پروانوں کی پھکوائیں مری لاش کے ساتھ
صبح کو صحبت جاناں سے یہ ساماں نکلا
جذب دل دیکھ تو عاشق کا ذرا او ظالم
ٹکڑے ہو ہو کے ترے تیر کا پیکاں نکلا
عشق گیسو میں عجب رات کٹی ہے میری
نالہ دل سے کوئی نکلا تو پریشاں نکلا
وصل کا ذکر نہیں قصۂ غم سے حاصل
کیوں سنیں ہم کہ کسی اور کا ارماں نکلا
میرے احباب یہ کہتے ہیں کہ شاعر ہے شفیقؔ
ہے تو جاہل یہ مگر خوب غزل خواں نکلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.