اس کی آمد مجھے خوشیوں کا پتہ دیتی ہے
اس کی آمد مجھے خوشیوں کا پتہ دیتی ہے
اک نظر اس کی مرا رنج بھلا دیتی ہے
زندگی روز عطا کرتی ہے اک زخم نیا
سانس لینے کی مجھے خوب سزا دیتی ہے
بے بسی میری اڑاتی ہے مرا خوب مذاق
بھوک کم ظرف کے آگے بھی جھکا دیتی ہے
لوٹ جاتی ہوں میں پھر اندھی ڈگر کی جانب
یاد تیری مجھے خاموش صدا دیتی ہے
جینے دیتی ہی نہیں تلخ حقیقت مجھ کو
میرے خوابوں کی یہ زنجیر ہلا دیتی ہے
کار دنیا سے نہیں ہوتا ہے احساس تھکن
بے رخی اپنوں کی انساں کو تھکا دیتی ہے
ڈوبتی کشتی کو ملتا ہے کنارہ پھر سے
کوئی امید نیا مژدہ سنا دیتی ہے
راہ میں لاکھ بچھائے کوئی کانٹے اس کے
دل سے دشمن کو بھی فرزانہؔ دعا دیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.