اس کی خوشبو کو غزلوں میں ڈھالیں ذرا ایسا طرز سخن اور بیاں لائیے
اس کی خوشبو کو غزلوں میں ڈھالیں ذرا ایسا طرز سخن اور بیاں لائیے
گیت گائیں ہوائیں بھی ہو کے مگن پھر سے گلشن میں وہ شوخیاں لائیے
چاندنی رات غم کی علامت تو ہے حسن اس کا مثالوں میں ملتا نہیں
عشق کرنے کے آداب یہ بھی تو ہیں اپنے لہجے میں خاموشیاں لائیے
جب بھی پائی ہیں سوغات میں ظلمتیں ایک تحفہ طلوع سحر بھی ملا
انقلاب زمانہ جو درکار ہو زندگی کے لیے آندھیاں لائیے
موگرا موتیا سوسن و چاندنی رات رانی چنبیلی بنفشہ کنول
گلستاں میں بہاریں ہیں اے دوستو لائیے ڈھونڈ کر تتلیاں لائیے
پر سکوں تھا سمندر تو خاموش تھے ٹھہرے پانی میں کیا بادباں کھولتے
آج طغیانیاں آئی ہیں جھوم کر ناخداؤ ذرا کشتیاں لائیے
تھے مشیرؔ اور قیصرؔ جہاں کے امیں دلی والوں کی وہ رونقیں کیا ہوئیں
لائیے جامع مسجد کی آغوش میں شاہدؔ انور وہی ہستیاں لائیے
صندلی مشک و عنبر سے اور عود سے پیرہن شاہدؔ انور وہ مہکیں سدا
جو شہیدوں کے تن کی ہو زینت وہی آسمانی قبا پرنیاں لائیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.