اس کی زلفوں کی ہر اک شام گزارے ہوئے ہیں
اس کی زلفوں کی ہر اک شام گزارے ہوئے ہیں
تب کہیں جا کے فلک تیرے ستارے ہوئے ہیں
شب تاریک میں روشن رہی جو مثل سحر
ہم اسی زلف سیہ رنگ کے مارے ہوئے ہیں
دشت خالی ہے کوئی عکس نہ کوئی سایہ
کس کی آواز کے ہم لوگ پکارے ہوئے ہیں
سر کہاں ہے کہ جو پتھر سے گھسا کرتے ہیں
دل کہاں ہے جسے صحرا میں اتارے ہوئے ہیں
ہم سے پہلے بھی بہت درد بہا ہے تجھ میں
ہم سے پہلے بھی بہت لوگ کنارے ہوئے ہیں
بعد مدت کے سمندر نے پکارا ہے مجھے
بعد مدت کے ہواؤں کے اشارے ہوئے ہیں
اک قدم اور ان آواز کے زینوں کی قسم
اک قدم اور کہ بس اپنے سے ہارے ہوئے ہیں
کروٹیں لیتا ہے اس شوخ کا موجوں میں بدن
جس کی پرچھائیں سے رنگین کنارے ہوئے ہیں
اب تو ظاہر ہو ترا پیکر خاموش کہیں
تری آہٹ کے سبھی رنگ ابھارے ہوئے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ کہیں رہتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ پکارے ہوئے ہیں
اس سے کہہ دو کہ ابھی چاند بھی کمہلایا نہیں
اس سے کہہ دو کہ ابھی شام سنوارے ہوئے ہیں
اس سے کہہ دو کہ چلا آئے نہ اب دیر کرے
آسماں اپنی ہتھیلی پہ اتارے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.