اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا
اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا
پھول کو شاخ سے کھلتے ہی جدا کرنا تھا
پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روئی کیوں ہے
موسم اس نے تو نشہ بار ذرا کرنا تھا
تلخ لمحے نہیں دیتے ہیں کبھی پیاسوں کو
سانس کے ساتھ نہ زہراب روا کرنا تھا
کس قدر غم ہے یہ شاموں کی خنک رنگینی
مجھ کو لو سے کسی چہرے پہ روا کرنا تھا
چاند پورا تھا اسے یوں بھی نہ تکتے شب بھر
یوں بھی یادوں کا ہر اک زخم ہرا کرنا تھا
دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا
کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی
درد کی نیلی رگیں دل میں رکھا کرنا تھا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 430)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.