اس کو مل کر دیکھ شاید وہ ترا آئینہ ہو
اس کو مل کر دیکھ شاید وہ ترا آئینہ ہو
غائبانہ ہی تری اس کی شناسائی نہ ہو
مجھ پہ ظاہر ہے ترے جی میں ہیں کیا کیا خواہشیں
بات ایسی کر کہ جس میں تیری رسوائی نہ ہو
احتیاطاً دیکھتا چل اپنے سائے کی طرف
اس طرح شاید تجھے احساس تنہائی نہ ہو
آسماں اک دشت کی صورت ستارے ریت ہیں
تو لب دریا سرابوں کا تمنائی نہ ہو
ڈھونڈ اب کچھ بھاگتے لوگوں میں صورت آشنا
ان بگولوں میں گئے لمحوں کی پروائی نہ ہو
تھا سفر در پیش صحرا کا گرہ میں رکھ دیے
اس نے کچھ کانٹے کہ عذر آبلہ پائی نہ ہو
کھینچ لے گا ابر سے بارش اگر سبزہ ہوا
تو کسی کی چاہ میں بے کار سودائی نہ ہو
ہم اسے چھوکر یہی سمجھے کہ وہ پتھر نہیں
اس سے بڑھ کر اور کیا کہئے جو بینائی نہ ہو
کھل گئی ہے آنکھ تو چادر بنا کر دیکھ لے
تیرے کمرے ہی میں ان خوابوں کی رعنائی نہ ہو
زخم تیرے دل کی زینت ہیں انہیں پردے میں رکھ
کوئی نامحرم ترے گھر کا تماشائی نہ ہو
آج شاہدؔ اس کے دروازے پہ پاؤں رک گئے
ریڈیو بجتا تھا میں چونکا کہ شہنائی نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.