اس کو قبول میری جدائی نہ ہو سکی
تنہائی میری مجھ سے پرائی نہ ہو سکی
بچپن سے اس کو شوق تھا مہندی کا دوستو
لیکن ہتھیلی اس کی حنائی نہ ہو سکی
جتنے پہ مانگ لیتا میں اس کا جہاں سے ہاتھ
اتنی کبھی بھی میری کمائی نہ ہو سکی
گزری تمام عمر اصولوں کی قید میں
میری کبھی بھی ان سے رہائی نہ ہو سکی
خوشیاں جو روٹھیں ہم سے تو مانی نہیں کبھی
لیکن غموں سے ایسی جفائی نہ ہو سکی
کیوں ناخدا کو ڈوبنے والا نہیں دکھا
کیوں پر اثر کسی کی دہائی نہ ہو سکی
واقف ہوں تیرے در کی سیاست سے اس لئے
مجھ سے تمہارے در کی گدائی نہ ہو سکی
سب کی لگائی ہم نے بجھائی تمام عمر
ہم سے کبھی لگائی بجھائی نہ ہو سکی
صحرا سے آ کے شہر سخن میں ٹھہر گئے
صحرا میں ہم سے آبلہ پائی نہ ہو سکی
تجھ سے کسی کا ساتھ نبھایا نہیں گیا
تجھ سے کبھی کسی کی بھلائی نہ ہو سکی
جانے کہاں سے سیکھ لی اس نے جفائیں اور
ہم نے وفا جو اس کو سکھائی نہ ہو سکی
وہ اٹھ گیا جو بزم سخن سے سو اس کے بعد
اہل سخن سے شعر سرائی نہ ہو سکی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.