اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی
اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی
تجربے کرتے ہوئے نوبت یہاں تک آ گئی
اب تو گہواروں پہ خادم رکھ لیے ماں باپ نے
مامتا تخمینۂ سود و زیاں تک آ گئی
تو نے کوشش تو یہی کہ تھی کہ گھر میرا جلے
آگ جب بھڑکی تو پھر تیرے مکاں تک آ گئی
اس نظام آب و گل میں زہر پھیلانے کے بعد
پھر وہی شورش زمیں سے آسماں تک آ گئی
مجھ میں اور دنیا میں پھر کیا فرق ہوگا دوستو
زندگی کی ہے جو تلخی گر زباں تک آ گئی
اتنی قربت تھی ہماری اپنے تیر انداز سے
دھار خوں کی جسم سے نکلی کماں تک آ گئی
بند یہ اپنے تشخص کا نہ بہہ جائے کہیں
موج سیل تند خطرے کے نشاں تک آ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.