اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا
کس کس کو اپنے خون جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بددماغ یہاں بھی بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا
- کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 44)
- Author : خلیل الرحمن اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.