اس سے بچھڑوں بھی تو اتنی تو خوشی رہتی ہے
اس سے بچھڑوں بھی تو اتنی تو خوشی رہتی ہے
پھر ملاقات کی امید بنی رہتی ہے
برسوں ان آنکھوں میں برسات کا موسم ٹھہرا
اب بھی اس کمرے میں تھوڑی سی نمی رہتی ہے
دیکھ سکتا ہے انہیں کون کہ ان آنکھوں میں
روشنی جیسی کوئی چیز بھری رہتی ہے
ان درختوں میں کوئی پھل تو نہیں آتے ہیں
ان درختوں کی مگر چھانو گھنی رہتی ہے
میں نے ہی عشق کی افواہ اڑائی ہے حضور
بات جو سامنے رہتی ہے دبی رہتی ہے
اب بھی اس گھر میں ترے جانے کا غم ہے زندہ
اب بھی اک کونے میں اک شمع بجھی رہتی ہے
دل میں اک پیڑ لگا رکھا ہے میں نے جس میں
تیری امید کی اک شاخ جھکی رہتی ہے
اے مری زندگی تو جتنی بھی بھرپائی کرے
سب کے ہوتے ہوئے اک اس کی کمی رہتی ہے
- کتاب : آوازوں کا روشن دان (Pg. 34)
- Author : کلدیپ کمار
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.