اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں
اس سے گلہ کروں کہ اسے بھول جاؤں میں
وہ وقت آ پڑا ہے کہ سب کچھ گنواؤں میں
کس کو دکھاؤں اپنی شب تار تار کو
سایہ بھی کوئی ہو تو اسے کچھ بتاؤں میں
مغرور ہو گیا ہے مجھے مجھ سے چھین کر
اے کاش اس کو اس سے کبھی چھین لاؤں میں
قصے سنا رہا ہے مری بے وفائی کے
اس کی طرح سے خود کو کبھی آزماؤں میں
کوئی نشاں ملے نہ کسی موج کو کبھی
گہرے سمندروں میں کہیں ڈوب جاؤں میں
اک بار مجھ کو اٹھ کے گلے سے لگا بھی لے
کس کو خبر ہے پھر یہاں آؤں نہ آؤں میں
محو طلسم شوخیٔ ریگ رواں ہے دل
اب بیٹھ کے کہاں تری صورت بناؤں میں
حیران ہوں میں اپنی قبا کو اتار کر
زخموں کے اس دیار میں کس کو بلاؤں میں
میں خاک ہو چکا ہوں خود اپنی ہی آگ میں
اس کے لہو کی آگ کہاں سے بجھاؤں میں
جی چاہتا ہے گھوموں میں اجملؔ خلا خلا
اپنے بدن کے پار کہیں مسکراؤں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.