اس ستم گر نے مجھے آج پکارا کیوں ہے
اس ستم گر نے مجھے آج پکارا کیوں ہے
سرد ہونٹوں پہ مروت کا فسانہ کیوں ہے
مری وحشت ہے چھپی اس کی نظر میں کیوں کر
اس کا چہرہ مرے چہرے کی طرح کا کیوں ہے
بادۂ جاں میں اترتا ہے جو قطرہ قطرہ
وہ دل افروز سخن درد نے سینچا کیوں ہے
دامن دل میں چھپائی ہیں گلابی یادیں
کون مہکا ہے یہاں آج یہ دھڑکا کیوں ہے
وہ مجھے کہتا ہے خوشبو ہوں غزل ہوں اس کی
اس کے لہجے میں مگر خوف خزاں کا کیوں ہے
فاصلے بڑھنے لگے کم نہ ہوئی مجبوری
دل برباد کو اک شخص کا سودا کیوں ہے
رسم الفت کو نبھاتا ہے نہ جاتا ہے کہیں
وہ مجھے بھول چکا ہے تو چھپاتا کیوں ہے
راز کھلتا ہے محبت کا ذرا رک رک کر
سرخ پھولوں کے لیے کوئی دوانہ کیوں ہے
گرچہ نیلمؔ نے کسی خواب کو سوچا تو نہیں
اس کی آنکھوں میں ابھی ایک دریچہ کیوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.