اسے عہد محبت سے مکر جانے کی جلدی تھی
اسے عہد محبت سے مکر جانے کی جلدی تھی
تھمی بارش تو دریا کو اتر جانے کی جلدی تھی
بچھڑ کر اس کو بھی شاید نئی دنیا بسانی تھی
مجھے بھی ٹوٹ کر خود ہی بکھر جانے کی جلدی تھی
سبب کوئی تو بتلا دو یوں اس کے دور جانے کا
اسے مجھ سے جدا ہو کر کدھر جانے کی جلدی تھی
یہ چاہت رند کی تھی رات بھر پیتا رہوں لیکن
ادھر ساقی کو بھی تو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی
اسے بھی شوق تھا ہر بات پر نقطہ بتانے کا
مجھے بھی طنز سن سن کر نکھر جانے کی جلدی تھی
مدد کے واسطے گھایل کی رکتا کون سڑکوں پر
وہاں ہر شخص کو بچ کر گزر جانے کی جلدی تھی
طبیب شہر تیرے ان دوا خانوں سے گھبرا کر
غریب شہر کو بستر پہ مر جانے کی جلدی تھی
توقع ہی نہ کی مرہم کی ان سے میں نے بھی ساحلؔ
مرے زخموں کو تو ایسے ہی بھر جانے کی جلدی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.