اسے کہہ دو حوادث کے بچھے ہیں جال سڑکوں پر
اسے کہہ دو حوادث کے بچھے ہیں جال سڑکوں پر
چلا کرتا ہے جو ہر دم گھمنڈی چال سڑکوں پر
اگر مسلک کے جھگڑوں نے مساجد بانٹ رکھی ہیں
تو پھر بہر خدا اپنے مصلے ڈال سڑکوں پر
کوئی سگنل کے وقفے تک بھی رکنے کو نہیں راضی
گنوا دیتا ہے کوئی ہنس کے سالوں سال سڑکوں پر
مشینیں گاڑیاں ہی گھومتی ہیں رات دن یارو
ہمارے دور میں ہے آدمی کا کال سڑکوں پر
بگڑ جاتی ہے جب تقدیر کی اور وقت کی گاڑی
اتر آتے ہیں سلطاں بن کے پھر کنگال سڑکوں پر
کنواری کوئی مچھلی شب میں تنہا گھر سے نہ نکلے
کہ شب میں پھرتے ہیں بھوکے کئی گھڑیال سڑکوں پر
نہیں گر نام میرا نا سہی پر کم سے کم یہ ہو
مری غزلیں چلیں اس کے لبوں کی لال سڑکوں پر
چمن کی سمت جاتی تتلیاں رہ سے بھٹک جائیں
وہ لہرا دے جو گل جیسے مہکتے بال سڑکوں پر
نبیلؔ اس طرح چمٹی ہے کسی کی یاد اس دل سے
جمی رہتی ہے جیسے گرد کی اک شال سڑکوں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.