اسے کہو کہ مرے سامنے ٹھہر جائے
بس اتنی دیر کہ محشر کا دن گزر جائے
کبھی ہوا ہے کہ شب رک سکے بہ وقت سحر
کہ پھول قتل کرو اور بہار مر جائے
میں چاہتا ہوں کوئی ایسا ساز پھونک اب کے
مرا وجود مرے سامنے بکھر جائے
تمہاری یاد میں ڈوبوں تو حشر سے نکلوں
یہی طریقہ ہے ممکن ہے کام کر جائے
نظر نظر میں گڑی ہے تو سانس چل رہی ہے
پلک جھپکنے میں یہ زندگی گزر جائے
براجمان ہیں مجھ جیسے رند رات گئے
کہ بزم ساقی سجی ہو تو کون گھر جائے
صراط کا ہے یہ اعلان کوئی کلمہ گو
علی کا پاس لیے آئے اور گزر جائے
طویل اتنا ہے اشکوں کا سلسلہ شاہدؔ
اگر میں آنکھ انڈیلوں تو عمر بھر جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.