اسے پتہ نہیں کیا لطف انکسار میں ہے
اسے پتہ نہیں کیا لطف انکسار میں ہے
جو شخص آج بھی مصروف کار زار میں ہے
یہ سوچتے ہوئے سورج نے آنکھ جھپکائی
فصیل شب سے پرے کوئی انتظار میں ہے
جب اڑتی ریت نے پتلی پہ آ کے دستک دی
تو جان پایا کہ صحرا بھی رہ گزار میں ہے
جہان چھوڑ جہانوں کے محتسب سے پوچھ
ہماری گریہ و زاری کسی شمار میں ہے
بڑے مکان کے سارے مکین بھول گئے
ہوا کا زور پرندوں کے اختیار میں ہے
مرے وجود کے ملبے کو سرسری نہ سمیٹ
گئے دنوں کی چمک بھی تہہ غبار میں ہے
شب فراق ترا ساتھ کس طرح دوں گا
تمام دن کی تھکن جسم کے مدار میں ہے
تڑپ رہا ہوں میں جس فرد کے لیے ازورؔ
یہاں سے دور کسی دوسرے دیار میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.