اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
وہ جو عمر بھر کی رفاقتوں کا تھا مدعی وہ کدھر گیا
وہ جو خواب تھے وہ بکھر گئے وہ جو آس تھی وہ سمٹ گئی
مجھے خوف جس کا تھا ہر گھڑی مرا ہم نوا وہی کر گیا
یہ نئے زمانے کی ریت ہے تری کیا خطا تجھے کیا کہوں
تجھے دل سے جس نے لگایا تھا وہی تیرے دل سے اتر گیا
نئی صحبتوں کی سہانی رت تجھے راس آئے مبارکہ
وہ جو جرم ترک وفا کا ہے ذرا سوچ کس کے وہ سر گیا
نہیں سہل عشق کی رہگزر میں الم نصیب و خطا سرشت
اے نئے نئے سے مسافرو جو چلا تو چل کے بکھر گیا
کبھی صحن دل میں اداسیاں جو بڑھیں تو ساز میں ڈھل گئیں
کبھی غم جو میری اساس ہے مری چشم تر میں ٹھہر گیا
اے شریک بزم نہ پوچھ بس وہ جو ہم سفر تھے وہ کیا ہوئے
کوئی دو قدم بھی نہ چل سکا کوئی درمیاں سے ہی گھر گیا
مری ذات مشت غبار ہے ترا اختروں میں شمار ہے
ذرا یہ بتا کہ بچھڑ کے تو کہاں رفعتوں پہ ٹھہر گیا
میں پھروں ہوں بار جفا لیے کبھی اس ڈگر کبھی اس نگر
کہ ثمرؔ یہاں کا رواج ہے جو بھی چپ رہا وہی مر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.