اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا
اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا
مرے نجم آب مجھے بتا وہ کہاں گیا
جو لکیر پانی پہ نقش تھی وہ کہاں گئی
جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا
کہاں ٹوٹے میری طناب جسم کے حوصلے
جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا
جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی کدھر گئی
وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا
گئے کس جہت کو تکون خواب کے زاویے
جو رکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا
ابھی عکس اس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتاً
مرے آئنے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا
کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں
جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.