اسی کی ذات کو ہے دائماً ثبات و قیام
اسی کی ذات کو ہے دائماً ثبات و قیام
قدیر و حی و کریم و مہیمن و منعام
بروج بارہ میں لا کر رکھی وہ باریکی
کہ جس کو پہنچے نہ فکرت نہ دانش و اوہام
ادھر فرشتۂ کروبی اور ادھر غلماں
قلم کو لوح پہ بخشی ہے طاقت ارقام
یہ دو ہیں شمس و قمر اور ساتھ ان کے یار
عطارد و زحل و زہرہ مشتری بہرام
جو چاہیں ایک پلک ٹھہریں یہ سو طاقت کیا
پھرا کریں گے یہ آغاز سے لے تا انجام
بشر جو چاہے کہ سمجھے انہیں سو کیا امکاں
ہے یاں فرشتوں کی عاجز عقول اور افہام
نکالے ان سے گل و میوہ شاخ و برگ و بار
سب اس کے لطف و کرم کے ہیں عام یہ انعام
اسی کے باغ سے دل شاد ہو کے کھاتے ہیں
چھہارے کشمش و انجیر و پستہ و بادام
چمک رہا ہے اسی کی یہ قدرتوں کا نور
بہر زماں و بہر ساعت و بہر ہنگام
کہ اس کا شکر کریں شب سے ما بہ روز ادا
اطاعت اس کی بجا لاویں صبح سے تا شام
نظیرؔ نکتہ سمجھ مہر و فضل خالق کو
اسی کے فضل سے دونوں جہاں میں ہے آرام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.