اسی زمین اسی آسماں کے ساتھ رہے
اسی زمین اسی آسماں کے ساتھ رہے
جہاں کے تھے ہی نہیں اس جہاں کے ساتھ رہے
نئی زمیں پہ کھلاتے رہے شناخت کے پھول
جہاں رہے وہاں اپنی زباں کے ساتھ رہے
سجا کے نوک پلک تک وراثتوں کا جمال
ثقافت وطن میزباں کے ساتھ رہے
ہم اپنے لمحۂ موجود کے حوالوں سے
غبار قافلۂ رفتگاں کے ساتھ رہے
تراشتی رہی موج ہوائے وقت ہمیں
چٹان تھے مگر آب رواں کے ساتھ رہے
کسی شکستہ کنارے سے ربط ہی نہ رکھا
سمندروں میں کھلے بادباں کے ساتھ رہے
بدن پہ جمنے نہ دی ہم نے گرد تنہائی
خیال انجمن دوستاں کے ساتھ رہے
بس اس خیال سے کچھ اس میں تیرا ذکر بھی تھا
سنی سنائی ہوئی داستاں کے ساتھ رہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 500)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.