اٹھ اس ہجوم سے اے بے وفا علاحدہ ہو
اٹھ اس ہجوم سے اے بے وفا علاحدہ ہو
مرا حساب چکا دے ذرا علاحدہ ہو
یہ کارواں تجھے رستے میں چھوڑ جائے گا
تو اپنا قافلہ بن خاک اڑا علاحدہ ہو
یہ باغ حسن ہمیشہ ہرا نہیں رہتا
بدلنے والی ہے آب و ہوا علاحدہ ہو
ہمارا جرم ہے کالا لباس اور ماتم
ہمارے جرم کی شاید سزا علاحدہ ہو
یہ لوگ دوست نہیں ہیں فقط منافق ہیں
نہ ان کو داغ محبت دکھا علاحدہ ہو
تو خاک زاد ہے مٹی ترا ٹھکانہ ہے
اتر کے تخت سے مٹی پہ آ علاحدہ ہو
یہاں پہ سبز رتوں کو اگر بچانا ہے
علم کا سرخ پھریرا بنا علاحدہ ہو
میں اپنے غم کی بہاروں میں مست ہوں یا رب
مجھے چمن سے نہ واپس بلا علاحدہ ہو
مرے کرم ہیں جلے اور ترے کرم چمکے
ہمارا دونوں کا شاید خدا علاحدہ ہو
اگر زمین پہ قبضہ ہوا تو کیا غم ہے
مرے خیال کا کچھ سلسلہ علاحدہ ہو
مجھے غزل کی طوالت پہ زور دینا پڑا
کہ لطف اور نشاں رنج کا علاحدہ ہو
وہ خود قطار میں بیٹھا رہا مگر فیصلؔ
مجھے اشارے سے کہنے لگا علاحدہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.