اتریں گہرائی میں تب خاک سے پانی آئے
اتریں گہرائی میں تب خاک سے پانی آئے
سب کو اے دوست کہاں اشک فشانی آئے
پھاندنی پڑ گئی کانٹوں سے بھری باڑ ہمیں
جتنے پیغام تھے پھولوں کی زبانی آئے
بس یہی سوچ کے کردار نبھاتے جاؤ
جانے کس موڑ پہ انجام کہانی آئے
ایک مدت میں خموشی سے رہا محو کلام
تب کہیں جا کے یہ لفظوں میں معانی آئے
کہیں دھوکا ہی نہ ہو شوق نئی منزل کا
میرے ہم راہ کوئی راہ پرانی آئے
شاذؔ خود میں ہی گنوائے ہوئے خود کو رکھنا
ہاتھ جب تک نہ کوئی اپنی نشانی آئے
- کتاب : khamoshi ki khidkii se (Pg. 305)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.