وعدۂ وصل عدو آج وفا ہو کہ نہ ہو
وعدۂ وصل عدو آج وفا ہو کہ نہ ہو
نالہ کرتا تو ہوں میں حشر بپا ہو کہ نہ ہو
حوصلہ آپ کا گو صرف جفا ہو کہ نہ ہو
میں کئے جاؤں وفا مجھ سے وفا ہو کہ نہ ہو
دل مضطر کو تم افشا کی ملامت نہ کرو
دل رہا ہو تو سہی ہوش ربا ہو کہ نہ ہو
زندگی کا نہ ملا لطف تری فرقت میں
اب تو مر جائیں گے مرنے میں مزہ ہو کہ نہ ہو
مائل ترک ستم تیری ادا ہو کہ نہ ہو
مثل میرے کوئی پابند رضا ہو کہ نہ ہو
آج تو کھولنے دو تا نہ رہے شک باقی
آپ کا بند قبا عقدہ کشا ہو کہ نہ ہو
ربط مقصود ہے آرام و مصیبت کیسی
میں تو کرتا ہوں وفا مجھ پہ جفا ہو کہ نہ ہو
ہم تو مے پیتے ہیں فرقت کے مزے لیتے ہیں
مرض ہجر کی دنیا میں دوا ہو کہ نہ ہو
عمر میں مجھ سے تجھے عہد تو کرنا ہے ضرور
عمر میں تجھ سے کوئی عہد وفا ہو کہ نہ ہو
کل شب وصل عدو لطفؔ تو آیا ہوگا
رشک سے آپ سے شاید کہ ملا ہو کہ نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.