واہ کیا خوب اسیری مری تقدیر میں ہے
واہ کیا خوب اسیری مری تقدیر میں ہے
پاؤں زنجیر میں دل زلف گرہ گیر میں ہے
ہو گئی پشت بہ دیوار اسے دیکھ کے خلق
اے پری زاد وہ حیرت تری تصویر میں ہے
کوششیں سینکڑوں کیں ہم نے اثر کچھ نہ ہوا
شدنی نام اسی کا ہے وہ تقدیر میں ہے
میرے گھر آپ قدم رنجہ کریں یا شہہ دیں
آپ کی خاک قدم کا اثر اکسیر میں ہے
ہے یہ بے چپن کہ دم بھر نہیں لیلیٰ کو قرار
کیسی جھنکار یہ مجنوں تری زنجیر میں ہے
او کماندار نہیں جاں بھی ہمیں تجھ سے عزیز
ہے تعجب کہ تجھے کشمکش اک تیر میں ہے
میں بھی ہوں فکر میں تیری کہ برابر کی ہے چوٹ
تو جو اے چرخ ستم گر مری تدبیر میں ہے
ہے خدا سے مجھے فردوس کے ملنے کی امید
باپ آدم تھے میرے یہ مری جاگیر میں ہے
کیوں نہ بھاگے یہ بلائے شب ہجر اے اکبرؔ
اثر آہ سحر نالۂ شبگیر میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.