واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
دلچسپ معلومات
نوٹ:مولانا حسرت موہانی اور مولوی نظامی بدایونی کے مطبوعہ دیوانوں کے آخری میں غیر مروجہ شعا کی ضمن میں اس غزل کا ایک یہ شعر بھی درج ہے ۔’’ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو،برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو‘‘
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو
یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو
رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں
نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو
طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.