وارفتگی کے ساتھ محابا بھی بہت ہے
وارفتگی کے ساتھ محابا بھی بہت ہے
اظہار تعلق بھی ہے اخفا بھی بہت ہے
جب نیند کے سرمے کو ترس جاتی ہیں آنکھیں
ان راتوں میں خوابوں کی تمنا بھی بہت ہے
وہ اک ورق سادہ جو سونپ آئے تھے تجھ کو
اس پر تری نم آنکھوں کا املا بھی بہت ہے
آنکھوں کے کٹورے ہوں یا ساغر ہوں لبوں کے
دل خوش ہو تو مٹی کا سکورا بھی بہت ہے
انکار سے ظاہر ہے کہ سمجھے تو ہیں کچھ بات
جانا کہ یہ جانا تو یہ جانا بھی بہت ہے
وہ نکتہ جسے کہنے کا یارا نہیں دل کو
اس کے لئے تحریر کا پردہ بھی بہت ہے
آوازوں کے انبوہ میں اک لفظ نہ پایا
یوں کہنے کو خوش وقتی میں پایا بھی بہت ہے
کچھ ان کو تامل سا ہے کچھ ہم کو تکلف
اب یہ بھی تعلق ہے تو اتنا بھی بہت ہے
جب شہر تمنا میں در و بام ہوں خاموش
احساس کو تنہائی کا صحرا بھی بہت ہے
رو گرداں ہیں اب وہ بھی تو کیا شب نہ کٹے گی
طارقؔ تمہیں تو صبح کا تارا بھی بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.