وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
بھرے ہے ساقی یہاں پیالے ز آب اول دوم بہ آتش
چمن میں جوش جنوں کے ہیں اشک اور داغ دروں سے اپنے
کروں شگفتہ گل اور لالے ز آب اول دوم بہ آتش
ہمارے اشک اور آہ کی موجیں باندھ دیتی ہیں سب جو دوری
بنے ہیں ماہ فلک پہ ہالے ز آب اول دوم بہ آتش
جہاں کے سب گرم و سرد دیکھے نہ ذوق ہے ان میں کچھ نہ لذت
دو روز چھاتی یہاں پکالے ز آب اول دوم بہ آتش
دو حکم ہیں شاہ عشق کے ان میں ایک گلنا ہے ایک جلنا
ہیں دفتر درد میں قبالے ز آب اول دوم بہ آتش
نہ کھول واعظ کتاب دانش کہ آتش عشق و آب مے سے
دھوؤں جلاؤں ترے رسالے ز آب اول دوم بہ آتش
ستم ہے آفت ہے مہر یا کیں بلا یہ عشق ستیزہ گر کی
دلوں کے خانے اجاڑ ڈالے ز آب اول دوم بہ آتش
پڑے ہیں ہم خون دل میں غلطاں جگر ہے داغ جفا سے سوزاں
کوئی ہے اپنے تئیں سنبھالے ز آب اول دوم بہ آتش
وصال کی جستجو میں حسرتؔ چلا نہ زاری نہ زور کا کچھ
بہت سے یاں ہم نے ڈھب نکالے ز آب اول دوم بہ آتش
- Deewan-e-Hasrat Azeemabadi
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.