وفا کی راہ میں کانٹے فراوانی سے ملتے ہیں
وفا کی راہ میں کانٹے فراوانی سے ملتے ہیں
ہزاروں زخم دل کی ایک نادانی سے ملتے ہیں
شکست دل ہی معراج محبت کا وسیلہ ہے
وفا کے ضابطے بھی خانہ ویرانی سے ملتے ہیں
صبا کی چھیڑ سے شیرازۂ گل کا بچھڑ جانا
یہ سب انداز دل کی چاک دامانی سے ملتے ہیں
نگاہیں ہوں تو پھر قید مکان و لا مکاں کیسی
بصیرت ہو تو پھر جلوے بھی آسانی سے ملتے ہیں
ہمارے دوستوں کے دل کا عالم دوست ہی جانیں
بظاہر تو بہت ہی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں
پریشانی کبھی انسان کو آنسو رلاتی ہے
کبھی تسکین کے ساماں پریشانی سے ملتے ہیں
زباں میں تاب گویائی نہیں عرض طلب کیا ہو
ہم ان سے صورت آئینہ حیرانی سے ملتے ہیں
گداز روح سے احساس غم بیدار ہوتا ہے
نشان منزل جاں اشک افشانی سے ملتے ہیں
ہمیں اپنی تباہی پر پشیمانی نہیں ہوتی
جھکا کر وہ نگاہیں جب پشیمانی سے ملتے ہیں
نہ طور ان سے شناسا ہے نہ دار ان سے شناسا ہے
ترے جلوے ترے جلوؤں کی تابانی سے ملتے ہیں
محبت کی فضاؤں میں طفیلؔ اکثر یہ دیکھا ہے
دہکتی آگ سے غنچے شرر پانی سے ملتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.