وفا کوشی نہیں جاتی ستم رانی نہیں جاتی
وفا کوشی نہیں جاتی ستم رانی نہیں جاتی
یہ اپنی اپنی عادت ہے بہ آسانی نہیں جاتی
حجابوں سے حقیقت کی درخشانی نہیں جاتی
کہ لو فانوس کے اندر ہے تابانی نہیں جاتی
جنون عشق کی اے دل فراوانی نہیں جاتی
کہ منزل سامنے ہے اور پہچانی نہیں جاتی
نہیں جاتی ہماری خانہ ویرانی نہیں جاتی
کہ شعلے بجھ چکے ہیں شعلہ سامانی نہیں جاتی
تجاہل عارفانہ ان کا بزم غیر میں توبہ
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
چمن میں رات بھر گو بادۂ شبنم برستی ہے
گل و بلبل کی پھر بھی پاک دامنی نہیں جاتی
کہاں ہم ہیں کہ من مانی تمہاری مان لیتے ہیں
ہماری ماننے کی بات بھی مانی نہیں جاتی
نگاہ حسن ہی کچھ کام کر جائے تو ممکن ہے
رفو کرنے سے ورنہ چاک دامانی نہیں جاتی
مخالف کچھ کریں اردو زباں مٹ ہی نہیں سکتی
کہ جب تک اپنی محفل سے غزل خوانی نہیں جاتی
محبت موجؔ وہ دریا ہے جس کی تھاہ مشکل ہے
اگر اک بار آ جاتی ہے طغیانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.