وفا نہ ان کے نہ اپنے ہی بس میں کیا کیجے
وفا نہ ان کے نہ اپنے ہی بس میں کیا کیجے
اسیر بحر ہیں تنکوں سے کیا گلہ کیجے
حصار سنگ سے ٹکرا کے مر تو سکتے ہیں
نجات سامنے ہے کچھ تو حوصلہ کیجے
بہت دنوں سے نہیں کوئی زندگی کا جواز
بدل کے لفظ وہی وعدہ پھر عطا کیجے
پہاڑ کاٹنے والوں کو کوئی سمجھا دے
کہ ہو سکے تو کسی دل میں راستہ کیجے
پلک پہ ٹھہری ہوئی شب پگھل کے بہہ جائے
کسی اداس فسانے کی ابتدا کیجے
نہ یوں ہو لاش کے پرزے خلا میں کھو جائیں
زمیں کا خاتمہ با لخیر ہو دعا کیجے
اسی کو اپنا کفن کیجیے اور سو رہئے
یہ شب نہ گزرے گی قیسیؔ خدا خدا کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.