وہی بے یقینی کی ہے فضا وہی گرد باد شمال ہے
وہی بے یقینی کی ہے فضا وہی گرد باد شمال ہے
میں چراغ جاں ہوں لیے ہوئے وہی شام شہر ملال ہے
وہ مسافتیں بھی گزر گئیں کہ دعا کے پھول تھے ہاتھ میں
یہ محبتوں کا دیار ہے یہی میرا مال و منال ہے
ترے حرف حرف میں رمز ہے تری گفتگو بھی کمال ہے
کبھی مل کے تجھ سے خوشی ملی کبھی تو ہی وجہ ملال ہے
ہے افق افق ترا تذکرہ ہے بحر بحر تری داستاں
مرے آئینوں میں ہے ضو فگن وہ ترا ہی عکس جمال ہے
کبھی بے جواز نہیں رہی مری زندگی کا جواز ہے
تری چاہتوں پہ غرور ہے مری چاہتوں کی مثال ہے
کبھی دل پہ بار لیا نہیں کہ گلہ کسی سے کیا نہیں
وہی بے نیازیٔ دوستاں وہی میرا حسن خیال ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.