وہی رہتا ہے سب لیکن زمانہ چھوٹ جاتا ہے
وہی رہتا ہے سب لیکن زمانہ چھوٹ جاتا ہے
پری سی بیٹیوں کا مسکرانا چھوٹ جاتا ہے
ادھورا زندگی کا ہر فسانہ چھوٹ جاتا ہے
وہ چڑیوں سا پھدکنا چہچہانا چھوٹ جاتا ہے
جدیدی دور میں بھی ہے قدیمی بیٹی کی قسمت
جدا ہوتے ہی بچپن سے گھرانا چھوٹ جاتا ہے
جو کل تک گھر تھا بیٹی کا ہوا ہے مائکہ اب وہ
ذرا سی رسم سے ہی آشیانا چھوٹ جاتا ہے
اگر ماں ٹھنڈی روٹی دیں تو ہم ناراض ہوتے ہیں
مگر سسرال جا کر گرم کھانا چھوٹ جاتا ہے
کوئی بغیا ثمر کے بن رہے سونی نہ اس خاطر
شجر بابا کے آنگن کا پرانا چھوٹ جاتا ہے
مہیا عیش و عشرت کا اثاثہ ہے ہمیں یوں تو
مگر اس میں کھلونوں کا خزانہ چھوٹ جاتا ہے
رہیں ماں باپ جب تک پوچھی جاتی ہے ہر اک بیٹی
پھر اپنے گاؤں اس کا آنا جانا چھوٹ جاتا ہے
جہاں کی ساری ذمہ داریاں ہیں منحصر ہم پر
نہ چھوٹے کام ہم سے بس کمانا چھوٹ جاتا ہے
ذرا سے دل میں رکھنے پڑتے ہیں پروت سے غم ہم کو
ذرا سی بات پر آنسو بہانا چھوٹ جاتا ہے
یہاں اک آرزوؔ کو گل کی نکہت سا بنانے میں
ہزاروں خواب کا موسم سہانا چھوٹ جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.