وہی ساغر وہی صہبا وہی مے خوار ہیں ساقی
وہی ساغر وہی صہبا وہی مے خوار ہیں ساقی
نظام نو کے کیا سچ مچ یہی آثار ہیں ساقی
خلوص دل ہے یا کچھ بے اثر اشعار ہیں ساقی
کریں کیا نذر تیری مفلس و نادار ہیں ساقی
نگاہ ناز کی مستی سے جو سرشار ہیں ساقی
وہ دیوانے حقیقت میں بہت ہشیار ہیں ساقی
پلا وہ جام جس سے مشکلیں آسان ہو جائیں
مراحل راہ الفت کے بہت دشوار ہیں ساقی
لکھا دیوار کا پڑھ لے خموشی کی صدا سن لے
بدلتے دور کے مبہم سے یہ آثار ہیں ساقی
جو کہتی تھیں کہ اک دن دید سے سرشار کر دیں گی
وہی آنکھیں بالآخر مانع دیدار ہیں ساقی
بہت کرتے ہیں کرنے کو تو دعوے جاں نثاری کا
جو تجھ پر جان دیتے ہیں فقط دو چار ہیں ساقی
عجب محفل ہے یہ محفل عجب عالم ہے یہ عالم
نہ ہم مجبور ہیں ساقی نہ ہم مختار ہیں ساقی
تیری بخشش کا یہ انداز کیا ہے کچھ نہیں کھلتا
جو ہیں اہل ہنر وہ لوگ ہی نادار ہیں ساقی
لگی دل کی بجھانے کو لپٹ جاتے ہیں شالوں سے
یہ پروانے کہاں کے پیکر ایثار ہیں ساقی
جو ہوتے ہیں اسیر جام وہ مے کش نہیں ہوتے
رہیں جو بے پیے سرشار وہ مے خوار ہیں ساقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.