وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا
وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا
مجھ کو لگتا ہے ترا نام سنا سا دریا
سب پہنچتے ہیں فقط پیاس بجھانے اپنی
کوئی دیکھے بھی تو کیسے کہ ہے پیاسا دریا
تیری آنکھیں ہیں سمندر یہ بتایا جب سے
تب سے آتا ہے نظر مجھ سے خفا سا دریا
تشنہ کاموں کی بڑی بھیڑ لگی ہے دیکھو
جو بھی آئے اسے دیتا ہے دلاسا دریا
خشک لب اپنے بھلا اس کو دکھاتا کیسے
نظر آیا تھا لئے ہاتھ میں کاسہ دریا
تیرتے تیرتے میں آج بھی تازہ دم ہوں
بہتے بہتے نظر آتا ہے تھکا سا دریا
میرے لب پر ہے وہی پیاس پرانی اب تک
میرے آگے ہے رواں ایک نیا سا دریا
بولو کیا لو گے ادھر چھوٹا سمندر ہے کمالؔ
ہے ادھر رکھا ہوا ایک بڑا سا دریا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.